Orhan

Add To collaction

غلط فہمیاں

غلط فہمیاں
از حورین 
قسط نمبر17


آمان صاحب گھر آ چکے تھے اور اب انکی طبعیت بھی ٹھیک تھی کافی ڈاکٹر کے حساب سے انھیں نارمل اٹیک ہوا تھا اور یہ انکا دوسرا اٹیک تھا جبکہ تیسری بار انکے لیے خطرہ ہو سکتا ہے
حور انکے پاس تھی جبکہ وہاج کچھ دیر پہلے ھی باہر گیا تھا اور شہناز بیگم ان کے لئے سوپ بنا رہیں تھیں 
💞💞💞💞💞💞💞💞
زارون وہاں سے سیدھا اپنے گھر آیا تھا اسکا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا کہ یہ اس نے کیا کیا اس کی وجہ سے ایسا ہوا نہ وہ ایسا کرتا نہ ایسا ہوتا اسکے دماغ کی رگیں پھٹنے کے قریب تھیں اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب وہ کیا کرے لیکن اب اس نے سوچا تھا کہ پہلے کشش کی میموری واپس لائی جائے اگر وہ اسے معاف کر دے گی تو وہ مرتضیٰ صاحب سے بھی معافی مانگ لے گا ابھی وہ سوچ ھی رہا تھا کہ اسکا موبائل بجا اسکا اٹھانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن نمبر دیکھ کے اس نے اٹھا لیا 
زارون مجھے سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں میں مجھے نہیں ٹھیک لگ رہا ایسا کرنا میں اسے خود سے بد گمان نہیں کر پا رہا مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیا کرنا ہے بتاؤ مجھے ۔اسے بے بس سی آواز آئی 
کیا؟تمہیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ایسا نہیں چاہتا بلکل بھی تمہارے ایسا کرنے سے اسکا دل دُکھا رہے ھی تم
جانتا ہوں میں یہ 
تو بس تم ایسا کچھ نہیں کر رہے اب 
لیکن 
لیکن ویکن کچھ نہیں بس ۔۔میں تمہیں بعد میں کال کرتا ہوں ۔یہ کہتے اس نے کال کاٹ دی جبکہ دوسری طرف پریشانی چھا گئی 
💞💞💞💞💞💞💞💞
 حوریہ سونے کی تیاری کر رہی تھی جب وہاج کمرے میں آیا 
وہ تم بیڈ پے سو سکتی ہو کل مجھے پریشانی تھی کوئی اس وجہ سے ۔۔۔خیر ۔۔۔آئی ایم سوری ۔وہاج نے شرمندہ لہجے میں کہا جبکہ وہ حیران کے ساتھ ساتھ خوش بھی تھی کہ جیسا وہ سوچ رہی تھی ویسا نہیں تھا وہاج پریشان تھا 
نہیں کوئی بات نہیں میں سمجھ سکتی ہوں ۔اس نے آرام سے کہا 
نہیں حوریہ تم نہیں سمجھ سکتی ۔وہاج نے دل میں سوچا 
ہمم رات بہت ہو گئی ہے تھک گئی ہو گی تم سو جاؤ کل کافی کام ہیں ۔وہاج نے اسے کہا ۔کیونکہ انکا ولیمہ ایک دن بعد رکھا گیا تھا تو اب کل انکا ولیمہ تھا 
حوریہ جھجھکتے ہوئے بیڈ پے آئی اور سونے کی کوشش کرنے لگی تب ھی اسے وہاج کی آواز آئی 
حوریہ مجھے کبھی غلط مت سمجھنا میں جو بھی کروں گا تمہاری بھلائ کے لئے کروں گا تمہیں یقین ہے نہ مجھ پے ؟۔اس نے آس سے اسکی جانب دیکھ کے کہا 
جی مجھے یقین ہے آپ کبھی میرے لئے کچھ غلط نہیں کریں گے ۔حوریہ نے بھی اسکی جانب دیکھ کے کہا تو وہ مسکرا دیا 
شکریہ حور مجھ پے بھروسہ کرنے کے لئے ۔اس نے اسکا ہاتھ تھام کے کہا 
همم.وه بس اتنا هی کہہ سکی
اچها چلو اب سو جاو مجهے بهى نیند آرهی هے گڈ نائٹ.اس نے اسکا هاته‍ چهوڑ کے کروٹ لیتے کہا تو وہ بھی گڈ نائٹ کہتے آنکھیں موند گئی 
💞💞💞💞💞💞💞💞
 آج حوریہ اور وہاج کا ولیمہ تھا ۔حوریہ اور عیشاء پارلر جا چکی تھیں سارا انتظام ہو چکا تھا آمان صاحب نے لاکھ کوششوں کے با وجود شرکت کی تھی 
وہاج اسٹیج پے آ چکا تھا اور اب حوریہ کا انتظار تھا ۔
اور اب حوریہ بھی آ چکی تھی اس کے ساتھ دائیں جانب شہناز بیگم اور بائیں جانب عیشاء تھی اور وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اسٹیج کی طرف آ رہی تھی اور وہاج کے دل کی دھڑکن بڑھا رہی تھی 
آج اس نے پنک کلر کا لہنگا جس پے نفیس سا کام ہوا تھا زیب تن کیا تھا بالوں کا جوڑا بنایا گیا تھا جس میں سے کچھ لٹیں نکالی گئیں تھی جو اس کے گلے میں جھول رہی تھیں ساتھ ھی بیوٹیشن کے عمدہ میک اپ میں وہ غضب ڈھا رہی تھی 
💞💞💞💞💞💞💞💞
وہ کل رات ھی لندن واپس آیا تھا ۔اور اس وقت وہ آئینے کے سامنے کھڑا اپنے بال بنا رہا تھا ایک آخری نظر اس نے خود پے ڈالی اور باہر کی رہ لی 
کچھ ھی دیر میں وہ اپنی منزل پے پوھنچ چکا تھا وہ گاڑی سے اترا اور اندر کی جانب بڑھا ۔اندر جا کے سامنے ھی اسے غضب ڈھاتی دشمن جاں نظر آئی ۔پھر وہ اسکی جانب چل پڑا زارون کو آتا دیکھ کے وہاج بھی اس سے ملنے کے لئے کھڑا ہو گیا ۔زارون نے اسے گلے لگا کے مبارک باد دی پھر حوریہ کو بھی دی اور وہاج نے اسکا تعارف کروایا 
حوریہ یہ میرا دوست ہے زارون علی ہے ۔اس نے آہستہ سے حوریہ کو بتایا تو وہ ہلکا سا سر ہلا گئی 
وہاج کے ایسے دوست ہیں کتنا عجیب انسان ہے یہ اس دن بھی کیسے گھور رہا تھا ۔حوریہ نے دل میں سوچا 
وہاج کین آئی ٹاک ٹو یو فائیو منٹس ۔زارون نے وہاج سے کہا ۔تو وہ اٹھنے لگا جب شہناز بیگم بولیں 
کیا کر رہے ہو وہاج بیٹھے رہو چپ کر کے ۔شہناز بیگم نے آنکھیں دکھاتے کہا 
اہ ماما کچھ نہیں ہوتا بس پانچ منٹس بائے دا وے میٹ مائے فرینڈ زارون علی ۔وہاج نے اسکی طرف اشارہ کر کے کہا 
السلام علیکم انٹی۔اس نے انھیں آرام سے سلام کیا 
وعلیکم اسلام بیٹا ۔انہوں نے بھی پیار سے جواب دیا 
اچھا بیٹا میں ابھی ۔وہ کسی کام کو یاد کرتے وہاں سے چل دیں 
ہاں بولو کیا بات ہے ۔زارون اور وہاج قدرے سائیڈ پے آ گئے 
وہاج میں کشش سے معافی مانگنا چاہتا ہوں لیکن ۔۔۔۔لیکن ایسے کیسے جب اسے کچھ یاد ھی نہ ہو پلیز میری مدد کرو اتنی مدد تم نے کی ہے میری مجھ پے یقین کیا پلیز مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ۔زارون نے بے بسی سے کہا 
دیکھو زارون میں کیا کر سکتا ہوں مجھے خود کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیسے اسکی میموری واپس لا سکتے ہیں ۔وہاج نے کہا لیکن یہ وہ ھی جانتا تھا وہ یہ سب کیسے کر رہا ہے وہ اپنی محبت کو خود ھی خود سے دور کر رہا ہے لیکن وہ خود غرض نہیں تھا 
میرے خیال سے مجھے ڈاکٹر سے بات کرنی چاہیے میں تمہیں کل بتاؤں گا ابھی مجھے جانا ہے بائے ۔وہ یہ کہتا چل دیا اور ایک آخری نظر حوریہ پے ڈال کے باہر نکل گیا اصل میں تو وہ کشش کو دیکھنے ھی آیا تھا اسے اس دن کا انتظار تھا جب کشش دوبارہ اس کے پاس اور اب وہ اسے کوئی تکلیف نہیں دے اسے ہر خوشی دے گا ہر دکھ ہر غم کو اس سے دور کر دے گا ۔دو مہینے جب وہ اس کے پاس تھی تو وہ اس سے سدھے منہ بات نہیں کرتا تھا اور اب وہ چاہتا تھا کہ اس سے بات کرے تو ایسا ممکن نہیں تھا اسکی نظروں میں اپنے نا پسندیدگی دیکھی تھی اس نے اور یہ دیکھ کے اسکا دل کٹ گا تھا لیکن اب اسے عقل مندی سے کام لینا تھا 
وہ جلدی سے اپنے گھر پوھنچا اور جا کے اپنے کمرے میں بند ہو گیا 
💞💞💞💞💞💞💞💞
ولیمے کے بعد اب وہ لوگ گھر واپس جا رہے تھے وہاج حوریہ اور عیشاء ایک ساتھ تھے جبکہ آمان صاحب اور شہناز بیگم ساتھ عیشاء کی ماما تھیں ج کہ اس کے بابا آج نہیں آے تھے 
وہاج اور حوریہ کی گاڑی اگے جبکہ آمان صاحب کی پیچھے تھی ۔
وہاج اس وقت بھی حوریہ کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اگر وہ uاس سے دور ہوئی تو ؟۔ابھی وہ سوچ ھی رہا تھا سامنے سے ایک ٹرک آیا ڈرائیور شاید کنٹرول نہیں کر پایا اور ادھر وہاج ایک دم اپنی سوچوں سے واپس نکلا کہ 
وہاج یہ یہ کیا ۔حوریہ بولی جبکہ عیشاء کا چہرہ سفید اور گیا 
وہااااج ۔ار زور دار آواز کے ساتھ ٹرک اور انکی گاڑی کا تصادم ہوا اور گاڑی زور سے پاس کی عمارت سے جا ٹکرای 
تب ھی پیچھے سے آمان صاحب اور شہناز بیگم جلدی سے انکی جانب آے ٹرک والا روکا نہیں تھا بلکہ جا چکا .گاڑی بری طرح کریش ہو چکی تھی اور شیشے بھی ٹوٹ چکے تھے 
وہاج وہاج حوریہ عیشاء ۔شہناز بیگم سب کو بلا رہیں تھیں ۔وہاج نے جان کے خود ڈرائیو کرنے کا کہا تھا جبکہ شہناز بیگم نے اسے کافی منع کیا تھا 
آمان صاحب نے ایمبولینس کو کال کی کیونکہ اپنی گاڑی ممیں وہ تینوں کو نہیں لے جا سکتے تھے 
ایمبولینس آ گئی اور  ان تینوں کو ہوسپٹل لے جایا گیا 
💞💞💞💞💞💞💞💞
  وہ اور کشش بہت خوبصورت جگہ پے تھے ہر طرف ہریالی تھی ۔وہ جانتا تھا کشش کو یہ سب پسند ہے لیکن 
دیکھتے ھی دیکھتے کشش اس سے دور جانے لگی اور اس کے پاؤں جیسے جم گئے وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکا وہ بلکل منجمد ہو گیا 
نہیں زارون آپ اگے مت آئیں ۔اس نے ہاتھ کھڑا کر کے اسے مزید روکا اور دیکھتے دیکھتے ھی وہ غائب ہو گئی 
کشش ۔۔۔وہ اچانک اٹھ بیٹھا اور لمبے لمبے سانس لینے لگا اور پھر سائیڈ ٹیبل سے گلاس میں پانی ڈال کے پیا oاور خود کو کچھ پرسکون کرنا چاہا لیکن بے چینی بڑھتی ھی جا رہی تھی اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا آخر اسکی وجہ کیا وہ اٹھا اور کمرے میں چکر کاٹنے لگا لیکن بے چینی بڑھتی جا رہی تھی پھر وہ بالکونی میں آیا اور اس کے باد اس نے کسی احساس کے تحت کمرے میں آ کے وہاج کا نمبر ڈائل کیا 
The number you have is currently powered off please try later 
اسکا نمبر بند جا رہا تھا ۔اسے مزید پریشانی نے گھیرا ۔وہ جانتا تھا یہ صحیح نہیں ہے لیکن اسے اس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ جلدی سے گاڑی کی چابیاں اور والٹ اٹھاتے باہر نکلا 
💞💞💞💞💞💞💞💞
انھیں ہوسپٹل ایڈمٹ کر دیا گیا تھا ۔کافی دیر sسے انکا علاج چل رہا تھا ۔اور ڈاکٹر nنے بتایا تھا کہ عیشاء کی کنڈیشن کچھ بہتر ہے جبکہ وہاج کی سب سے زیادہ کرٹیکل ہے اور حوریہ بھی کچھ بہتر ہے لیکن زیادہ نہیں 
ڈاکٹرباہر نکلا تو آمان صاحب نے ان سے پوچھا 
ڈاکٹر صاحب کیسے ہیں میرے بچے ٹھیک تو ہیں  نہ 
جی آپکی بیٹیاں ٹھیک ہیں انھیں کچھ دیرمیں ہوش آ جائے گا جبکہ 
جبکہ کیا ڈاکٹر صاحب بتائیں جبکہ کیا ۔اب کی بار شہناز بیگم بولیں 
جبکہ آپکے بیٹے کے بارے ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے انکا برین کافی ڈیمج ہوا ہے اگر انھیں اگلے 24 گھنٹوں میں ہوش آ جاتا تو ٹھیک ورنہ وہ کومہ میںجا سکتے ہیں یا پھر۔ ۔ڈاکٹر اپنی بات ادھوری چھوڑ کے انکا کاندھا تھپتھپا کے چلے گئے جبکہ شہناز بیگم اور آمان صاحب ڈھے سے گئے 
💞💞💞💞💞💞💞💞
وہ بہت تیز ڈرائیو کر رہا تھا اسکا کافی بار ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا جب وہ وہاج کے گھر پوھنچا تو واچ مین نے اسے بتایا کے گھر میں کوئی نہیں وہاج صاحب کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ ہوسپٹل ہیں اسے یہ سب آمان صاحب نے بتایا تھا 
وہ ہوسپٹل پوھنچ چکا تھا جلدی سے گاڑی سے اتر کے وہ اندر گیا اور ریسیپشن سی ان کے بارے میں پوچھا اور جلدی سی اس طرف گیا   
السلام علیکم انکل میں وہاج کا دوست میں اس سے ضروری کام سے ملنے گھر گیا تھا تو مجھے پتا چلا کیسےہیں سب ؟اس نے جلدی جلدی ان سے پوچھا 
واعلیکم اسلام بیٹا ڈاکٹر نے کہا ہے کہ وہاج کو 24 گھنٹے میں ہوش نہ آیا تو وہ کومہ میں چلا جائے گا ۔انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں جبکہ شہناز بیگم خاموش رہیں 
اور اور باقی سب وہ ٹھیک ہیں ۔
ہاں ہاں ٹھیک ہیں حوریہ اور عیشاء کو کچھ دیرمیں ہوش آ جائے گا۔یہ سن کے وہ کچھ پر سکون ہوا لیکن وہ وہاج کے لئے بھی پریشان تھا  ۔اور انھیں کچھ عجیب تو لگا لیکن وہ نظر انداز کر گئے تب ھی نرس بھاگتی ہوئی باہر تو زارون آمان صاحب اور شہناز بیگم جلدی اس کے پاس جا کے اسے روک کے پوچھا 
کیا کیا ہوا سسٹر سب ٹھیک ہے ۔زارون نے پوچھا 
مریض کی حالت کافی خراب ہو گئی ہے میں ڈاکٹر کو بولاتی ہوں ۔یہ کہتے وہ جلدی سے چلی گئی جبکہ باقی سب پیچھے ساکت ہو گئے 
💞💞💞💞💞💞💞💞
سات سال بعد 
اذان اذان رک جاؤ بیٹا چھوٹ لگ جائے گی ۔وہ اسے پکڑنے اسکی طرف بھاگی 
کیا ہو گیا بیگم کیوں اس کے پیچھے پڑی ہو کچھ نہیں ہوتا ۔وہ جو باہر جا رہا تھا اسکی طرف آ کے بولا 
کیسے نہیں ہوتا ابھی یہ اتنا بڑا نہیں ہے اور آپکو تو بس اپنا صاحب زادہ ہی نظر آتا ہے ۔وہ اسے گھور کے بولی 
ایسا تو نہیں بیگم ہمیں تو آپ بھی نظر آتیں ہیں ۔وہ اس کے قریب ہوتے بولا 
نہیں میرا مطلب آپ اسکی زیادہ طرف داری مت کیا کریں بگاڑ رہے ہیں آپ اسے ۔وہ منہ پھولا کے بولی 
ارے نہیں بگڑتا وہ ۔۔اذان بیٹا ادھر اؤ ۔وہ اس کے پھولے منہ کو دیکھا اذان کو بولانے لگا جو اس کے بولنے پے جلدی ہی حاضر ہو گیا ۔یہ دیکھ کے اسکی ماما کا منہ کھل گیا جبکہ وہ وہ اس کے کھولے منہ کو دیکھتا بڑی مشکل سے اپنی مسکراہٹ روک نے لگا 
بیٹا ماما کو تنگ مت کیا کرو انکی بات مانا کرو ۔وہاج نیچے بیٹھتا اذان سے بولا 
پڑ بابا ماما دندی ۔وہ بھی اپنی ماں کی طرح منہ پھولا کے بولا 
ارے نہیں بیٹا ماما آپ سے بہت پیار کرتی ہیں ایسے نہیں کہتے اچھے بچے ہو نہ آپ ۔اس نے اسے سمجھایا تو وہ زور زور سے اثبات میں سر ہلانے لگا تو وہ مسکرا دیا 
چلو اب اندر جاؤ اپنا ہوم ورک کرو ۔اس نے اسے کہا تو وہ اندر کی جانب بھاگا
پھر وہ اپنی بیوی کی جانب مڑا جو اسے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی اسے پتا تھا وہ اذان سے بہت پیار کرتا ہے اور اذان بھی اسکی سب سے زیادہ مانتا تھا لیکن کبھی کبھی وہ تنگ آ جاتی تھی ان باپ بیٹے سے 
ایسے نہ دیکھو بیگم دل بے ایمان ہو رہا ہے ۔وہ اسے شوخ نظروں سے دیکھتا شرارت سے بولا تو وہ چھیپ گئی 
شرم کریں ایک بیٹے کے باپ بن گئے ہیں لیکن یہ چھچھوری حرکتیں نہیں ختم ہوتی آپ کی ۔وہ اپنی چھنپ مٹانے کو اسے گھور کے بولی 
ارے اپنی ہی بیوی سے شرم کیسی ویسے میں سوچ رہا ہوں اذان کا کوئی بہن یا بھائی ہونا چاہیے ۔۔۔نہیں ؟۔وہ سنجیدگی سے دیکھ کے بولا لیکن آنکھوں میں شرارت واضح تھی 
اذان چلو مجھے اپنا کو کا ٹیسٹ دکھاؤ  ۔اسکی بات سن کے وہ تیزی سے اندر کی جانب بھاگی جبکہ اسکا قہقہہ بے ساختہ تھا جس کا اس نے دور تک اسکا پیچھا کیا 

   1
0 Comments